Breaking News

اُڑان بھرتی پاکستان کرکٹ کی تباہی کی کہانی

کون ہیں ذمہ دار؟ کس نے کیا ٹیم سے کھلواڑ

سرفراز (2017) سے محمد رضوان (2025) تکپاکستان کرکٹ ٹیم کی ناکامیوں کی وجوہات پر خصوصی رپورٹ

2016 سے 2018 تک سرفراز احمد کی قیادت میں پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی ٹیم نے اُڑان بھری یہاں تک کہ لگاتار 11 باہمی سیریز جیتنے سمیت خود کو دُنیا کی نمبرون سائیڈ بنایاپھر 2018 کا سورج ڈھلتے ہی سب کچھ بدلنے لگا۔

فروری 2019 میں پاکستان کو دورۂ سائوتھ افریقہ میں دو، ایک سے شکست ہوئی تو دورۂ انگلینڈ میں واحد ٹی ٹوئنٹی میچ بھی ہارے۔ پھر سری لنکا کی نئی ٹیم کے خلاف اپنے ہی ملک میں صفر، تین سے ہار گئے

سرفراز احمد جو 2017 سے اسکاٹ لینڈ کے خلاف 89* رنز کی واحد ففٹی پلس اننگز کے سہارے کپتانی کی وجہ سے ٹیم میں جگہ برقرار رکھے ہوئے تھے، سری لنکا کے ہاتھوں کلین سوئپ کے بعد اُنہیں کپتانی کے ساتھ ساتھ ٹیم میں اپنی جگہ سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔

آخری 20 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنلز میں سرفراز احمد صرف دو ہی بار اپنا انفرادی اسکور 30 رنز سے اوپر لے جاسکے تھے جن میں 34 اور 38 رنزکی اننگز شامل تھیں۔

جب سرفرازاحمد سے کپتانی لی گئی تو پاکستان ٹیم آخری سات میں سے چھ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنلز ہارچکی تھی جن میں سری لنکا کے خلاف ہوم سیریز کا کلین سوئپ بھی شامل تھا۔

بعدازاں نئے کپتان بابراعظم کو دورۂ آسٹریلیامیں دو ٹی ٹوئنٹی میچز میں شکست ہوئی تاہم اُس کے بعد پاکستان ٹیم دوبارہ فتح کی پٹڑی پر چل پڑی۔

پاکستان دُنیا کی دوسری کامیاب ٹی ٹوئنٹی ٹیم

2020 سے لیکر آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ تک 2022 تک پاکستان نے 66 میں سے 41 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنلز جیتے اور 21 میں شکست کھائی۔ اس عرصے میں پاکستان محض بھارت کے بعد فتح و شکست کے تناسب کے اعتبار سے دوسری بہترین ٹیم تھی۔

اس دوران پاکستان نے پہلی کسی ورلڈکپ کے گروپ مرحلے میں ناٹ آئوٹ رہنے کا اعزاز پایا، ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ 2021 کا سیمی فائنل کھیلا، 2022 کا فائنل کھیلا، نیوزی لینڈمیں ٹرائی سیریز جیتی، ایشیاکپ کا فائنل کھیلا۔

اس عرصے میں نہ صرف بڑے ایونٹس میں پاکستان کی کارکردگی شاندار رہی بلکہ 13 میں سے 8 باہمی سیریز جیتیں، ایک ہاری جبکہ صرف چار میں ہار ہوئی۔

اس عرصے میں بابراعظم اور رضوان نے کسی بھی تیسرے ساتھی کھلاڑی کے مقابلے میں دوگنے رنز کئے۔ ان لگ بھگ تین برسوں میں پاکستان کی جانب سے تین ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل سنچریاں بنیں جو تینوں ہی بابراعظم اور محمد رضوان نے بنائی۔

پاکستان کی جانب سے بننے والی 36 میں سے 25 ففٹیاں بھی اسی جوڑی نے بنائیں

پاکستان کی فتوحات کو ایک طرف رکھتے ہوئے سابق پلیئرز اور کچھ تجزیہ کاروں نے محمد رضوان اور بابراعظم کے اسٹرائک ریٹ کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا حالانکہ ان تین برسوں میں 150 سے زائد رنز کرنے والے پاکستانی بلے بازوں میں محض شاداب خان اور محمد حفیظ کے بعد سب سے زیادہ اسٹرائک ریٹ محمد رضوان اور بابراعظم ہی کا تھا۔

اس عرصے میں بابراعظم اور محمد رضوان نے 136 اور 135 کے اسٹرائک ریٹ سے رنز کئےجبکہ فخرزمان 126، حیدر علی 124،افتخاراحمد 127، خوشدل شاہ 110 کے اسٹرائک ریٹ رنز کرسکے لیکن اُن کی بیٹنگ اور اسٹرائک ریٹ کو ہمیشہ سراہا گیا۔

لیکن پاکستانی شائقین اور نئے کرکٹ بورڈ کو یہ کارکردگی پسند نہ آئی۔ 2014 اور 2016  کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں پہلے پہلے رائونڈ میں باہرہونے والے سابق کپتان اور سابق کھلاڑی بھی بابراعظم کی قیادت پر سوالات اُٹھانے لگے۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ 2022 کا فائنل ہارنے کے بعد بابراعظم کو کپتان سے ریسٹ دیدیا گیا۔ پھر شاداب خان کپتان بنے، پھر بابراعظم واپس آئے، پھر شاہین آفریدی کوکپتان بنادیاگیا، پھر بابراعظم کو دوبارہ کپتانی دی گئی۔ نجم سیٹھی کے دورمیں شروع ہونے والی کپتانی کی چھینا چھپٹی نے ٹیم کے ماحول پر بُرا اثر ڈالا اور ٹیم فتح کے ٹریک سے اُتر کر ناکامیوں کی دلدل میں پھنس گئی۔

نیا فارمولا

اب پاکستان کرکٹ ٹیم کو اس دلدل سے نکالنے کیلئے نیا فارمولا لایا گیا ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ سے ایوریج کارکردگی والے کھلاڑی پاکستان ٹیم میں لائے جائیں۔

شاید سلیکٹرز کو لگتا ہے کہ ڈومیسٹک میں اچھی کارکردگی دکھاکر پاکستان ٹیم میں آنے والے ناکام ہوجاتے ہیں تو کیوں نہ اس بار اُلٹا کام کیا جائے۔ یعنی ڈومیسٹک میں پرفارم نہ کرپانے والے پلیئرز کو انٹرنیشنل کرکٹ میں لایا جائے ، شاید وہ یہاں کامیاب ہوجائیں۔

ورنہ اس کے علاوہ کوئی اور منطق سمجھ نہیں آتی ہے۔ کیونکہ جن پلیئرز کو اسٹرائک ریٹ کے نام پر ٹیم میں لانے کا پلان بنایا جارہاہے، اُن کا نہ ہی اسٹرائک ریٹ اچھا ہے اور نہ ہی ایوریج اور نہ ہی اُن کے پاس تجربہ ہے۔

Check Also

وکرانت گپتا کی پاکستان میں مشکوک سرگرمیاں

وکرانت گپتا کا وہ کام جس نے پاکستانی شائقین کو آگ بگولہ کردیا بھارت سے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔