پاکستان کرکٹ ٹیم کے نئے ٹیسٹ کپتان شان مسعود اپنی خراب کارکردگی کی وجہ سے زیربحت ہیں ہی لیکن اب اُن کے اپنے پلیئرز کے ساتھ رویئے پر بھی سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔
شان مسعود کے فیصلے دیکھ کر ساتھی پلیئرزسے جیلسی کا عنصر واضح دکھائی ہے اور یہ اُن کی کپتانی میں کھیلی جانے والی دوسری سیریزمیں دوسرا ایسا مشکوک فیصلہ ہے جو شان مسعود کو جیلس کپتان ثابت کررہاہے۔
کیا شان مسعود واقعی ہی جیلسی انسان ہیں یا پھر محض ایک پروپیگنڈہ ہے؟ اس کا جائزہ ہم اس رپورٹ میں لیتے ہیں۔
محمد رضوان کو ڈبل سنچری سے محروم کرنا
پہلے راولپنڈی ٹیسٹ کا دوسرا دن تھا اور آخری سیشن جاری تھا۔ محمد رضوان 109 ویں اوورکی پانچویں گیندپر چوکا لگاتے ہیں اور آخری گیند پر سنگل رن لیکر اپنا انفرادی اسکور 162 تک پہنچادیتے ہیں۔
اگلے اوورکی پہلی 3 بالز ڈاٹ کرکے چوتھی گیند پر چوکا لگاتے ہیں ۔اس دوران وہ 44 سال بعد ڈبل سنچری اسکور کرنے والے پہلے وکٹ کیپر بننے کی جانب بڑھ رہے ہوتے ہیں۔دوسرے اینڈ پر موجود شاہین آفریدی آغاز میں تیزی سے رنزبنانے کے بعد ریلیکس ہوچکے ہوتے ہیں اور2 ڈبل رنز کے شاٹس کے بعد آخری گیندیں اطمینان سے گزارتے ہیں اور اسٹرائک محمد رضوان کے حوالے کرتے ہیں۔
اس دوران اچانک سے ڈریسنگ روم میں بیٹھے کپتان شان مسعود اپنے پلیئرزکو گرائونڈ سے باہر آنے کا اشارہ کرکے اننگز ڈیکلیئر کرنے کا اعلان کردیتے ہیں۔
اب اُن کے اس فیصلے دو طرح کی رائے قائم ہوچکی ہے
- کپتان کو قومی ٹیم کا مفاد عزیز تھا، آخری حصے میں کچھ وکٹیں حاصل کرنا مقصد تھا
- شان مسعود ساتھی پلیئرز سے جیلس ہیں
سوالات
- اننگز ڈیکلیئرکرنے سے قبل بیٹسمینوں کو آخری اوورزمیں تیزی سے رنز بنانے کا کیوں نہ کہا؟
- ڈبل سنچری کے اتنا قریب آنے پر مزید 3،4 اوورزکا کھیل کیوں نہ ہونے دیا
- جب سارے دن کے کھیل کے بعد پچ بیٹنگ کیلئے سازگارہوچکی تھی تو بنگلہ دیشی بیٹرز کو کیوں موقع دیا
شان مسعود اور اُن کے حامی شاید اس تاثر کو اُبھار رہے ہیں کہ انفرادی ریکارڈ یا سنگ میل کی اہمیت نہیں۔ یہ سوچ کسی حد تک ٹھیک ہے لیکن ذاتی ریکارڈکی اہمیت نہیں اور کسی کو ذاتی ریکارڈ نہیں بنانے دینا۔۔یہ دو الگ الگ سوچیں ہیں اور لگتا ہے کہ شان مسعود دوسرے والی سوچ کے ساتھ چل رہے ہیں۔
عامر جمال کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا
رواں سال کے اوائل میں عامرجمال میں سڈنی ٹیسٹ میں آسٹریلیا کی پہلی اننگزمیں 6 وکٹیں حاصل کرکے کینگروز کے دیس میں ایک باہمی ٹیسٹ سیریزمیں زیادہ (18) وکٹیں حاصل کرنے میں عمران خان اور مشتاق احمد کے برابر آچکے ہیں تاہم 1983 میں عظیم حفیظ کے قائم کردہ 19 وکٹوں کے ریکارڈبرابر کرنے کیلئے مزید ایک جبکہ ریکارڈ توڑنے میں مزید 2 وکٹیں درکار تھیں۔
سڈنی ٹیسٹ کی آخری اننگز میں جب آسٹریلوی ٹیم 130 رنزکا چھوٹا ٹارگٹ چیس کرنے آئی تو پاکستان ٹیم کو وکٹوں کی اشد ضرورت تھی اور توقع کی جارہی تھی کہ سیریزمیں شاندار پرفارم کرنے والے عامرجمال سے زیادہ بولنگ کرائی جائے گی لیکن ایسا بالکل نہیں ہوا۔
شان مسعود نے میر حمزہ اور آئوٹ آف فارم ساجد خان سے اٹیک کرایا۔ پھر ان بولرز کے ہٹنے کے بعد بھی عامر جمال کو موقع نہ دیا بلکہ حسن علی اور سلمان علی آغاسے بولنگ کرائی۔اور عامر جمال کو تب جا کر بولنگ تھی جب ڈیوڈوارنر اور اسٹیو اسمتھ وکٹ پر سیٹ ہوچکے تھے اور میچ پاکستان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔
اس آخری اننگزمیں عامرجمال کو صرف 3.5 اوورز کرانے کا موقع ملا جبکہ سلمان علی آغا جیسے پارٹ ٹائمر سے 5 اوورز کرائے گئے۔
ایسا نہیں ہے کہ پچ فاسٹ بولرز کیلئے مددگار نہ تھی کیونکہ گزشتہ ہی اننگز میں آسٹریلوی فاسٹ بولر جوش ہیزل ووڈ سب سے زیادہ 4 وکٹیں حاصل کرکے ثابت کرچکے تھے کہ پچ میں فاسٹ بولرز کیلئے مدد موجود ہے۔
اس صورتحال کے باوجود عامرجمال سے بولنگ نہ کرانا ایسے ہی سمجھ سے بالاتر ہے جیساکہ حالیہ راولپنڈی ٹیسٹ میں اچانک پاکستان کی اننگز ڈیکلیئر کرنا ہے۔
شان مسعود کی نیت
شان مسعود ایسے فیصلے کیوں کررہے ہیں، اُن کیا نیت ہوتی ہے۔یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے لیکن تواتر کے ساتھ ایسے واقعات اُن کے کردار پر سوالات کھڑے کررہے ہیں۔